Friday 30 April 2021

صلیب مرگ پہ آؤ بدن اتارتے ہیں

 صلیبِ مرگ پہ آؤ بدن اتارتے ہیں

تمام عمر کی لادی تھکن اتارتے ہیں

وہ میری ذات سے یوں مُنحرف ہوا جیسے

کسی قمیض سے ٹُوٹے بٹن اتارتے ہیں

غزال شخص  تم اِتراؤ، حق بھی بنتا ہے

تمہاری آنکھ کا صدقہ ہرن اتارتے ہیں

ہر ایک سانس اُدھڑتی ہے سود بھرتے ہوئے

یہ قرضِِ زندگی سب مرد و زن اتارتے ہیں

عطا ہر ایک پہ ہوتی نہیں کہ مالکِ کُن

چنیدہ لوگوں پہ رزقِ سخن اتارتے ہیں

جو عشق گھول کے دیتے ہیں میٹھے لہجوں میں

رگوں میں زہر بھی وہ دفعتاً اتارتے ہیں

گلے لگاؤ کہ تھک جانے والے لوگوں کو

دلاسہ دیتے ہیں، دل کی گھُٹن اتارتے ہیں


کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment