Tuesday, 27 April 2021

کمال شب تھا کہ مجھ سے جدا ہوا نہ کبھی

 کمالِ شب تھا کہ مجھ سے جُدا ہوا نہ کبھی

میرا رفیقِ سفر جو مجھے ملا نہ کبھی

بچھڑ کے مجھ سے تجھے زخم لگ گئے کیا کیا

یہ ایک زخمِ ندامت کہ جو بھرا نہ کبھی

سُبک ہے، تر ہے، تہی ہے، خبر نہ تھی ورنہ

میں ایک پَل تیرے دامن کو چھوڑتا نہ کبھی

میں خوش نہیں کہ میرے حرف کی امان میں ہے

تیرا خرام کہ ہوتا تھا والہانہ کبھی

زمین پہ موسمِ گل کا خمار آتے ہی

فلک کی آنکھ میں خوں ہے کہ پہلے تھا نہ کبھی

عذاب میں ہے نظر، رو میں ابرِ امکاں ہے

کبھی سراب، کبھی سنگ، تازیانہ کبھی

کھٹک رہا ہے نگاہِ گُہر فروشاں میں

وہ ایک شیشۂ سادہ کہ جو بکا نہ کبھی


مبارک حیدر

No comments:

Post a Comment