یہ آرزو تھی اسے آئینہ بناتے ہم
اور آئینے کی حفاظت میں ٹوٹ جاتے ہم
تمام عمر بھٹکتے رہے یہ کہتے ہوئے
کہ گھر بناتے سجاتے اسے بلاتے ہم
ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا
یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم
بگاڑے بیٹھے تھے تقدیر اپنے ہاتھوں سے
ہتھیلیوں کی لکیریں کسے دکھاتے ہم
خدا نے اتنا کرم اور کر دیا ہوتا
کہ جس نے زخم دئیے اس کو بھول جاتے ہم
کچھ اس سبب سے بھی یہ زخم لا دوا ٹھہرے
ہر ایک شخص کا احساں نہیں اٹھاتے ہم
تو اپنے غم سے ہی خالی کہاں ہے اے طارق
جو تیرے پاس کبھی آ کے بیٹھ جاتے ہم
طارق قمر
No comments:
Post a Comment