Tuesday 27 April 2021

یہ آرزو تھی اسے آئینہ بناتے ہم

 یہ آرزو تھی اسے آئینہ بناتے ہم

اور آئینے کی حفاظت میں ٹوٹ جاتے ہم

تمام عمر بھٹکتے رہے یہ کہتے ہوئے

کہ گھر بناتے سجاتے اسے بلاتے ہم

ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا

یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم

بگاڑے بیٹھے تھے تقدیر اپنے ہاتھوں سے

ہتھیلیوں کی لکیریں کسے دکھاتے ہم

خدا نے اتنا کرم اور کر دیا ہوتا

کہ جس نے زخم دئیے اس کو بھول جاتے ہم

کچھ اس سبب سے بھی یہ زخم لا دوا ٹھہرے

ہر ایک شخص کا احساں نہیں اٹھاتے ہم

تو اپنے غم سے ہی خالی کہاں ہے اے طارق

جو تیرے پاس کبھی آ کے بیٹھ جاتے ہم


طارق قمر

No comments:

Post a Comment