Tuesday 27 April 2021

وہ شعر سن کے مرا ہو گیا دوانہ کیا

 وہ شعر سن کے مِرا ہو گیا دِوانہ کیا

میں سچ کہوں گا تو مانے گا یہ زمانہ کیا

کبھی تو آنا ہے دنیا کے سامنے اس کو

اب اس کو ڈھونڈھنے دَیر و حرم میں جانا کیا

سنا ہے کام چلاتے ہو تم بہانوں سے

اُدھار دو گے مجھے بھی کوئی بہانہ کیا

تمہاری یادوں کی گرمی ہے سرد راتوں میں

لحاف ایسے میں اب اوڑھنا بچھانا کیا

جلے گا جتنا بھی دنیا کو روشنی دے گا

چراغِ علم و ہُنر ہے اسے بُجھانا کیا

تباہ کرنے پہ آئے تو پھر نہیں سنتی

وہ نرم رو ہے ندی کا مگر ٹھکانہ کیا


نذیر نظر

No comments:

Post a Comment