Tuesday 27 April 2021

میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے

 میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے

ساغر سے گریزاں ہے خود تشنہ لبی کب سے

اے سایۂ گیسو کے دیوانو!! بتاؤ تو

معیار جنوں ٹھہری راحت طلبی کب سے

چوسا ہے لہو جس نے برسوں مہ و انجم کا

انساں کا مقدر ہے وہ تیرہ شبی کب سے

اک حشر سا برپا ہے زنداں سے بیاباں تک

پابند سلاسل ہے ایذا طلبی کب سے

جس کے لیے ساز اپنا سر پھوڑتے پھرتے ہیں

نغموں کی وہ دولت ہے سینے میں دبی کب سے

جو دار و رسن کو بھی خاطر میں نہیں لاتی

تعزیر کے قابل ہے وہ بے ادبی کب سے

فرصت غم دوراں سے ملتی ہی نہیں ارشد

دل میں لیے پھرتے ہیں موج عنبی کب سے


ارشد صدیقی

No comments:

Post a Comment