یہ موسم سرمئی ہے اور میں ہوں
مگر بس خامشی ہے اور میں ہوں
نہ جانے کب وہ بدلے رخ ادھر کو
مسلسل بے رخی ہے اور میں ہوں
تغافل پر تغافل ہو رہے ہیں
کسی کی دل لگی ہے اور میں ہوں
تصور ہی سہارا بن گیا ہے
عجب تنہائی سی ہے اور میں ہوں
یہ کیسی وقت نے بدلی ہے کروٹ
فریبِ زندگی ہے اور میں ہوں
لبوں پہ نام، چہرہ ہے نظر میں
بڑی نازک گھڑی ہے اور میں ہوں
اداسی اندؔرا اتنی بڑھی ہے
ہمیشہ شاعری ہے اور میں ہوں
اندرا ورما
No comments:
Post a Comment