Thursday, 29 April 2021

یہ موسم سرمئی ہے اور میں ہوں

 یہ موسم سرمئی ہے اور میں ہوں

مگر بس خامشی ہے اور میں ہوں

نہ جانے کب وہ بدلے رخ ادھر کو

مسلسل بے رخی ہے اور میں ہوں

تغافل پر تغافل ہو رہے ہیں

کسی کی دل لگی ہے اور میں ہوں

تصور ہی سہارا بن گیا ہے

عجب تنہائی سی ہے اور میں ہوں

یہ کیسی وقت نے بدلی ہے کروٹ

فریبِ زندگی ہے اور میں ہوں

لبوں پہ نام، چہرہ ہے نظر میں

بڑی نازک گھڑی ہے اور میں ہوں

اداسی اندؔرا اتنی بڑھی ہے

ہمیشہ شاعری ہے اور میں ہوں


اندرا ورما

No comments:

Post a Comment