اپنے بدن کی جھونپڑی میں، دل اکیلا تھا بہت
باہر تو روشن تھادیا، اندر اندھیرا تھا بہت
بس اک ایموجی بھیج کر، خاموش ہو جاتی تھی وہ
اک لفظ لکھنا تھا مجھے اس بیچ کہنا تھا بہت
کیفے کے رش میں ہی سہی، مجھ سے مخاطب تو ہوئی
میں نے بھی رستہ دے دیا، حالانکہ رستہ تھا بہت
کھلتے تھے سارے واہمے، جڑتے تھے سارے واقعات
ہر عشق کے آغاز پر، اک خواب آتا تھا بہت
اس بالکونی پر کوئی، آتا تھا اکثر رات کو
چہرہ نظر آتا نہ تھا پر دل دھڑکتا تھا بہت
اک پارٹی میں سینکڑوں آنکھوں سے ہم گھائل ہوئے
باقی تو سارے بھر گئے اک زخم گہرا تھا بہت
چوبیس گھنٹے بعد بھی سو کر نہ اُٹھ پاتے تھے ہم
یعنی گھڑی میں وقت بھی اس کے علاوہ تھا بہت
میں چاہتا تو تھا یہی اس شام اس کو چوم لوں
چاہا تھا کر پایا نہیں جبکہ ارادہ تھا بہت
تنہا نکل پڑتے تھے ہم، ان خواب گاہوں کی طرف
جن میں اداسی تھی بہت، جن میں اندھیرا تھا بہت
فیضان ہاشمی
No comments:
Post a Comment