ایک ہی دشت ہے یہ بھی نہ کھنگالا میں نے
دل پہ لینا نہیں تھا پاؤں کا چھالا میں نے
گھر کے ڈھ جانے میں غفلت مِری شامل تھی مگر
سارا ملبہ در و دیوار پہ ڈالا میں نے
کاش میں اپنے عزاداروں کو بتلا سکتا
کیسا دکھ تھا وہ جسے موت سے ٹالا میں نے
آخرِ کار غلامی سے بغاوت کر دی
اور زنجیر کو شمشیر میں ڈھالا میں نے
یوں تو ہر شخص یہاں آنکھ لیے پھرتا ہے
پر نہیں دیکھا کوئی دیکھنے والا میں نے
اور پھر اک روز ہمیشہ کے لیے کھو گیا میں
یعنی اک روز اُسے ڈھونڈ نکالا میں نے
عقیل شاہ
No comments:
Post a Comment