اے موجِ صبا
اے موجِ صبا
آ تُو ہی بتا
اب کیسے ہیں
وہ گلیاں کوچے بام و در
وہ مہکے رستے، خوشبو گھر
وہ نیند بھرے مدہوش سفر
وہ گیت سناتے بوڑھے شجر
اے موجِ صبا آ تُو ہی بتا
تُو گزری ہے اُس آنگن سے
اُن بیلوں، بُوٹوں کو چھُو کر
کیا تُو نے بھی اُس کھڑکی میں
دیکھا ہے میری سجنی کو
کیا حال تھا اُس کا، کیسی تھی؟
کچھ بولی میرے بارے میں
کیا اب بھی اُس کے ہونٹوں پر
اِک نام مِرا ہی ہوتا ہے
کیا اب بھی چاند کا ہرکارہ
اُس نیل گگن میں سوتا ہے
کیا اُس کی کلائی میں کنگن
ویسے ہی کھنکتے رہتے ہیں
کیا اُس کے کانوں میں بُندے
ویسے ہی مہکتے رہتے ہیں
کیا اُس کی باتوں کے پنچھی
ویسے ہی چہکتے رہتے ہیں
اے موجِ صبا کچھ بات تو کر
وہ کیسی ہے
کیا اُس کے حِنائی ہاتھوں پر
لکھا ہے میرا نام ابھی
کیا اُس کی گھنیری زُلفوں میں
کرتی ہے دھنک آرام ابھی
کیا اُس کی کتابوں میں میری
تصویریں اب بھی سوتی ہیں
کیا اُس کی آنکھوں میں میری
وہ نظمیں اب بھی ہوتی ہیں
کیا اب بھی اُس کی پلکوں پر
کچھ جگنو ٹھہرے ہوتے ہیں
کیا اب بھی اُس کے کمرے میں
خط میرے بکھرے ہوتے ہیں
اے موجِ صبا آ تُو ہی بتا
کچھ حال سُنا اُس پگلی کا
کیا بچھڑی کُونج کی صورت وہ
روتی ہے سوگ میں روگی سی
کیا کالے رنگ کے کپڑوں میں
کرتی ہے چُپ کا ماتم بھی
اے موجِ صبا آ تُو ہی بتا
کیا شام سمے چھت پر جا کر
روتی ہے اپنی قسمت کو
دیتی ہے خود کو دوش سبھی
یا مجھ سے گِلے کرتی ہے وہ
کیا اب بھی اُس کے گالوں پر
میرا ہی غازہ بِکھرا ہے
یا یوں ہے کہ اِس عرصے میں
اِک خواب نیا اُس کمرے میں
تعبیر کی صورت اُترا ہے
اے موجِ صبا آ تُو ہی بتا
ارشد ملک
No comments:
Post a Comment