لکنتِ عشق پہ بس صبر و رضا چلتا ہے
یار اتنا بھی نہیں ذہن تِرا چلتا ہے
واقعی اب کے تِرا ہجر مجھے چاٹ گیا
اپنی تصویر پرانی سے پتا چلتا ہے
کتنا رویا تھا میں اس شخص کو رُخصت کرتے
جس نے بہتے ہوئے اشکوں سے کہا؛ چلتا ہے
کوئی دن بیٹھ کے ہم دشت نوردوں سے تو پوچھ
کیا نہیں چلتا ہے اور عشق میں کیا چلتا ہے
روز میں اک نیا خواب کما لیتا ہوں
اب محبت میں کام بڑا چلتا ہے
وہ جدائی کی اذیت کو سمجھتے ہیں حسن
جن پہ تا عمر مقدر کا لکھا چلتا ہے
عطاءالحسن
No comments:
Post a Comment