روشن آئینوں میں جھوٹے عکس اتار گیا
کیسا خواب تھا میری ساری عمر گزار گیا
وقت کی آنکھوں میں دیکھی کالی گھنگھور گھٹا
لیکن گز بھر چھاؤں نہیں تھی جب میں پار گیا
میں کیوں عرض تمنا لے کر اس در پر جاؤں
موجۂ بادِ صبا کے پیچھے کب گلزار گیا
اس دنیا میں بے قدروں سے کس نے پایا فیض
اس کے پیار میں جینا مرنا سب بے کار گیا
اب سنسان گلی میں سایہ تک موجود نہیں
آدھی رات کے سناٹے میں کون پکار گیا
چہروں کو پیروں سے کچل کر آگے بڑھ جانا
جیت اسی کو کہتے ہیں تو پھر میں ہار گیا
شاہنواز زیدی
No comments:
Post a Comment