Thursday 29 April 2021

روشن آئینوں میں جھوٹے عکس اتار گیا

 روشن آئینوں میں جھوٹے عکس اتار گیا

کیسا خواب تھا میری ساری عمر گزار گیا

وقت کی آنکھوں میں دیکھی کالی گھنگھور گھٹا

لیکن گز بھر چھاؤں نہیں تھی جب میں پار گیا

میں کیوں عرض تمنا لے کر اس در پر جاؤں

موجۂ بادِ صبا کے پیچھے کب گلزار گیا

اس دنیا میں بے قدروں سے کس نے پایا فیض

اس کے پیار میں جینا مرنا سب بے کار گیا

اب سنسان گلی میں سایہ تک موجود نہیں

آدھی رات کے سناٹے میں کون پکار گیا

چہروں کو پیروں سے کچل کر آگے بڑھ جانا

جیت اسی کو کہتے ہیں تو پھر میں ہار گیا


شاہنواز زیدی

No comments:

Post a Comment