Wednesday, 28 April 2021

اس سے گلے شکایتیں شکوے بھی چھوڑ دو

 اس سے گلے شکایتیں شکوے بھی چھوڑ دو

در اس کا چھٹ گیا تو دریچے بھی چھوڑ دو

کیسا ہے وہ کہاں ہے، بنا کس کا ہمسفر؟

بہتر ہے کچھ سوال ادھورے بھی چھوڑ دو

اک بے وفا کا نام لکھو گے کہاں تلک؟

اوراق اپنے ماضی کے سادے بھی چھوڑ دو

جینے کے واسطے نہ سہارے کرو تلاش

جب ڈوب ہی رہے ہو تو تنکے بھی چھوڑ دو

شاید نئے مکان میں ان کا نہ دل لگے

گھر چھوڑنے لگو تو پرندے بھی چھوڑ دو

دریا سے دور رہنا ہے بہتر ہے اب شکیل

دھارے سے کٹ گئے تو کنارے بھی چھوڑ دو


شکیل شمسی

No comments:

Post a Comment