اگر تعلق پہ برف ایسی جمی رہے گی
ہمیں تمہاری، تمہیں ہماری کمی رہے گی
سمے کا دھارا سفید رُوئی گِرا رہا ہے
میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی
ہمیں مکمل خوشی کبھی کیا نصیب ہو گی
ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی
مِرے لہو میں بغاوتوں کا رچاؤ سا ہے
مِری ہمیشہ صلیب سے ہمدمی رہے گی
اے میرے بارش کے موسموں میں بچھڑنے والے
بتا ان آنکھوں میں کب تلک یوں نمی رہے گی
میں اپنے قدموں پہ اپنے دم سے کھڑا ہوا ہوں
ان آندھیوں کی تو یوں مجھ سے برہمی رہے گی
پکڑ کے رکھا ہوا ہے یہ ہاتھ تم نے جب سے
یہ سانس میری تھمی ہوئی ہے، تھمی رہے گی
آزاد حسین آزاد
No comments:
Post a Comment