کچھ نہ کچھ عہدِ محبت کا نشاں رہ جائے
آگ بُجھتی ہے تو بُجھ جائے دھواں رہ جائے
دشت در دشت اُڑے میرا غبارِ ہستی
آب بر آب مِرا نام و نشاں رہ جائے
منتظر کون ہے کس کا یہ اسے کیا معلوم
اس کی منزل ہے وہی جو بھی جہاں رہ جائے
یوں تو کہنے کو بہت کچھ تھا غزل میں لیکن
لطف کی بات وہی ہے جو نہاں رہ جائے
پریم کمار نظر
No comments:
Post a Comment