اس لیے بھی نہيں بنتی مِری سالار کے ساتھ
میں رعایت نہيں کرتا کسی غدار کے ساتھ
میں نے اوروں کی طرح نقل مکانی نہيں کی
دشت آباد کیا بھی تو، درِ یار کے ساتھ
بعض اوقات مجھے عشق ہوس لگتا ہے
ایسی ان ہونیاں ہوتی ہیں قلمکار کے ساتھ
اب تجارت میں گنوائیں گے مِرے بھائی مجھے
اور میں دُور نکل جاؤں گا بازار کے ساتھ
مصلحت اوڑھ کے چپ رہنا بھی پڑ جاتا ہے
مسئلے حل نہيں ہوتے کئی تلوار کے ساتھ
یہ غزل میر کی مجلس میں سنائی جائے
رکھ دیا جائے یہ کنکر دُرِ شہوار کے ساتھ
بانٹتا پھرتا ہے لوگوں میں خدائی عامی
یہ جو درویش لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
عمران عامی
No comments:
Post a Comment