Friday 30 April 2021

کاش سمجھدار نہ بنوں

 کاش سمجھدار نہ بنوں


تجربہ کار ذہن تو سب سمجھ جاتا ہے

ذہن میں سوچوں کو بند کر کے

تالا ڈال دوں

چالاک آنکھیں تو سب کچھ تاڑ لیتی ہیں

ان پر لا علمی کے شیشے چڑھا دوں

اپنے حساس دل کو

ذرا خاطر میں نہ لاؤں

ماضی کا تمام مشاہدہ اور تجربہ

جو درج ہے ذہن پر

اسے مٹا ڈالوں

میری عقل میرے لیے عذاب بن گئی ہے

کاش سمجھدار نہ بنوں

سسکی اور قہقہہ

میں اپنے پاؤں تلے سے جنت نکال کر

بڑی خوشی سے تمہیں سونپنے کے لیے تیار ہوں

میں اپنے پاؤں میں بندھی گرہستی کی بیڑیوں کو

بس تھوڑا سا ڈھیلا کر رہی ہوں

زیادہ دور نہیں جاؤں گی

ایک قہقہہ لگا کر ایک سسکی بھر کر

یا ایک نظم لکھ کر لوٹ آؤں گی

میں آزاد عورت ہوں، لیکن

اگر میرے بچوں کے بالوں میں لیکھیں پڑ جائیں

ان کی گردن پر پسینہ ملی مٹی نظر آئے

میرے کھانوں میں مصالحوں کی ترتیب گڑبڑ ہو جائے

بچوں کے ہوم ورک کی کاپی پر

ناٹ‌ ڈن لکھا ہوا آ جائے

گھر آئے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے

ایک کپ چائے بھی نہ پلا سکوں

آفس سے لوٹتے ہوئے تھکے ہوئے شوہر سے

حال احوال بھی نہ پوچھوں

تو میری سانسیں گھٹی ہوئی

اور قہقہہ پھٹی پھٹی آنکھیں

اور نظم ادھورا خواب لگتی ہے

خدا نے نبوت عطا کرتے ہوئے، امام بناتے ہوئے

پوری قلندری عطا کرتے ہوئے

مجھ پر اعتبار نہیں کیا تھا

پوری قوم کو اعلیٰ نسل دینے کی ذمہ داری

فقط میری ہے

اس عالی منصب پر کام کرتے کرتے

میں تھک بھی تو سکتی ہوں

میری اتفاقی رخصت منظور ہو چکی ہے

میں جا رہی ہوں ایک سسکی بھرنے ایک قہقہہ لگانے

اور ایک نظم لکھنے کے لیے

چھٹی اخلاقی طور پر منظور ہونے کے باوجود

گھر کی ہر چیز کو مجھ سے شکایت

کیوں ہے

بچوں کے چہرے پر غصہ دیکھ کر سوچتی ہوں

قہقہہ عیاشی اور سسکی یا آس ہے

اور نظم پاؤں میں چبھا ہوا کانچ کا ٹکڑا ہے

میری ماں کہتی ہے

تم مجھ سے اچھی ماں نہیں ہو

تم عجب ہو، گھر شوہر اور بچوں کے علاوہ

اور بھی کچھ چاہتی ہو

میری بیٹی میرے ہاتھ سے قلم چھین کر

کہتی ہے فرنچ فرائی بنا


عطیہ داؤد

No comments:

Post a Comment