Tuesday 27 April 2021

اپنوں کے درمیان سلامت نہیں رہے

 اپنوں کے درمیان سلامت نہیں رہے

دیوار و در مکان سلامت نہیں رہے

نفرت کی گرد جمع نگاہوں میں رہ گئی

الفت کے قدر دان سلامت نہیں رہے

روشن ہیں آرزو کے بہت زخم آج بھی

زخموں کے کچھ نشان سلامت نہیں رہے

ایسا نہیں کہ صرف یقیں در بدر ہوا

دل کے کئی گمان سلامت نہیں رہے

محفوظ بام و در ہیں صداقت کے آج بھی

دھوکے کے پاندان سلامت نہیں رہے

اپنوں سے اپنے لہجے میں باتوں کا ہے کمال

کچھ شخص بد زبان سلامت نہیں رہے


رمیش کنول

No comments:

Post a Comment