جئے جانے کے خواب میں زندہ
اک مسلسل سراب میں زندہ
زندگی کے لیے ترستے لوگ
زندگی کے عذاب میں زندہ
ہاتھ آئی نہیں کوئی منزل
ہیں سفر کے سراب میں زندہ
خواب مرتے نہیں ہیں ذہنوں کے
نغمہ جیسے رباب میں زندہ
کشتِ دل لہلہائی اشکوں نے
رنگِ دنیا سحاب میں زندہ
وہ نمو خیز کالی مٹی ہے
شکل خوشبو گلاب میں زندہ
روز رہتے ہیں سانحے در پیش
ہم ہیں گویا حباب میں زندہ
میر کے رنگ میں ڈھلے اشعار
درد و غم ہیں کتاب میں زندہ
شہلا نقوی
No comments:
Post a Comment