تمہارے ہجر کو کافی نہیں سمجھتا میں
کسی ملال کو حتمی نہیں سمجھتا میں
یہ اور بات کہ عاری ہے دل محبت سے
یہ دُکھ سوا ہے کہ عاری نہیں سمجھتا میں
چلا ہے رات کے ہمراہ چھوڑ کر مجھ کو
چراغ اس کو تو یاری نہیں سمجھتا میں
میں انہماک سے اک انتظار جی رہا ہوں
مگر یہ کام ضروری نہیں سمجھتا میں
مِری وفا ہے مِرے منہ پہ ہاتھ رکھے ہوئے
تُو سوچتا ہے کہ کچھ بھی نہیں سمجھتا میں
احمد کامران
No comments:
Post a Comment