اکیلی چل رہی ہوں، جل رہی ہوں، تم نہیں آنا
میں غم کی پرورش میں پل رہی ہوں تم نہیں آنا
تمہارے نام کی مہندی لگا کر خوب مہکے تھے
میں ان ہاتھوں کو بیٹھی مل رہی ہوں تم نہیں آنا
مجھے ہی شوق تھا تم کو میری آنکھوں میں رکھنے کا
سو اب میں آئینوں سے ٹل رہی ہوں تم نہیں آنا
مسیحا! کچھ دنوں کا اور ہے یہ خاکستر بھی
میں اپنے آپ کو ہی کھل رہی ہوں، تم نہیں آنا
جہاں جس کے کنارے ہم کبھی اک ساتھ بیٹھے تھے
اسی ندیا کے جل میں رل رہی ہوں تم نہیں آنا
میگی اسنانی
No comments:
Post a Comment