کیا کریں صبر بھی نہیں ہوتا
دل پہ اب جبر بھی نہیں ہوتا
ہم ترستے ہیں بارشوں کیلئے
جن دنوں ابر بھی نہیں ہوتا
آ رہی ہوتی ہیں کبھی غزلیں
اور کبھی نثر بھی نہیں ہوتا
جانتا عشق اگر مقام اپنا
اتنا بے قدر بھی نہیں ہوتا
خوف رہتا ہے شام کا جبکہ
وقتِ سہ پہر بھی نہیں ہوتا
مشتری بھی کوئی نہیں دل کا
اور کہیں نذر بھی نہیں ہوتا
دور کتنا ہے عالمِ بالا؟
کوئی خط پَتر بھی نہیں ہوتا
دل نہ پائے سکوں ہدایت گر
مطمئن فقر بھی نہیں ہوتا
ہدایت اللہ شمسی
No comments:
Post a Comment