کر کے مسحور مجھے چشم کرم سے پہلے
کر دیا مہر بہ لب اس نے ستم سے پہلے
اک ہمیں کو نہیں ناکامئ قسمت کا گِلہ
نامراد اور بھی کچھ گزرے ہیں ہم سے پہلے
میں خطا وار ہوں لیکن مِری تقصیر معاف
آہ کب منہ سے نکلنی ہے ستم سے پہلے
تُو نے غم دے کے مجھے دولت دنیا دے دی
زندگی ایسی کہاں تھی تِرے غم سے پہلے
پیش ہے مرحلۂ سخت خدا خیر کرے
بتکدہ راہ میں پڑتا ہے حرم سے پہلے
کوئی سمجھا نہ حقیقت کے رموز و اسرار
کوئی پہنچا نہ تِری بزم میں ہم سے پہلے
قافلے بھٹکے ہوئے منزل مقصود سے تھے
بند تھی راہ مِرے نقش قدم سے پہلے
کھیل سمجھا تھا مگر ترکِ محبت اے سیف
غور انجام پہ کرنا تھا قسم سے پہلے
سیف بجنوری
No comments:
Post a Comment