Thursday 29 April 2021

نیندوں کو جب خواب میں جوتا جاتا تھا

 نیندوں کو جب خواب میں جوتا جاتا تھا

میں بس اپنے نین بھگوتا جاتا تھا

آنچل کا اک پھول شرارت کرتا تھا

اک شہزادہ پتھر ہوتا جاتا تھا

پھول دُعائے نور سناتے تھے اور میں

اس کی خاطر ہار پروتا جاتا تھا

عشق میں ہم نے جتنے رنگ اپنائے تھے

وحشی دھوبی سب کو دھوتا جاتا تھا

پانی بھرنے ایک کنویں پر جاتی تھی

اس کا پانی میٹھا ہوتا جاتا تھا

میری حالت اتنی ابتر ہو گئی کیا؟

کہتے ہیں کل وہ بھی روتا جاتا تھا

میں ممتاز گلابوں جیسا ہونے کو

اس کی خوشبو دل میں بوتا جاتا تھا


ممتاز گورمانی

No comments:

Post a Comment