راستہ دیر تک سوچتا رہ گیا
جانے والے کا کیوں نقشِ پا رہ گیا
آج پھر دب گئیں درد کی سسکیاں
آج پھر گُونجتا قہقہہ رہ گیا
اب ہوا سے شجر کر رہا ہے گِلہ
ایک گُل شاخ پر کیوں بچا رہ گیا
جھوٹ کہنے لگا سچ سے بچنے لگا
حوصلے مٹ گئے تجربہ رہ گیا
ہنستے گاتے ہوئے لفظ سب مٹ گئے
آنسوؤں سے لکھا حاشیہ رہ گیا
وقت کی دھار میں بہہ گیا سب مگر
نام دیوار پر اک لکھا رہ گیا
اس کے دم سے کہے شعر میں نے ہلال
پھُول اس دھوپ میں جو کھُلا رہ گیا
ہلال فرید
No comments:
Post a Comment