نہیں ہے یوں کے دما دم ہوا نے رقص کیا
شدید حبس تھا، کم کم ہوا نے رقص کیا
بس ایک میں ہی وہاں پر طواف میں تو نہ تھا
درونِ شہرِ مکرّم ہوا نے رقص کیا
چراغ قتل ہوا تو خوشی سے مقتل میں
لگا کے نعرۂ رقصم ہوا نے رقص کیا
تمام دن کی تمازت کے بعد رات گئے
گری جو پھول پہ شبنم ہوا نے رقص کیا
سمندروں کے سفر سے پلٹ کے آئی تو
ذرا ذرا سی ہوئی نم ہوا نے رقص کیا
آصف رشید اسجد
No comments:
Post a Comment