محصور ہوئے لوگ، قیامت کی گھڑی ہے
ظالم کو، مگر ظلم کمانے کی پڑی ہے
گلزاروں، چناروں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
اس بار لگی آگ میں شدت ہی بڑی ہے
اُترا نہیں مُنصف کا ابھی تخت زمیں پر
خلقت ہے کہ میدان میں دم سادھے کھڑی ہے
مظلوم کے ہونٹوں پہ دعائیں ہیں کہ آہیں
ہاتھوں میں ہے تسبیح کہ اشکوں کی لڑی ہے
کیا عالمِ حیرت ہے کہ دل پھٹنے لگا ہے
قاتل کی ہے تلوار کہ پھولوں کی چھڑی ہے
سنتا ہوں کہ اب خواب نہیں زندگی پاتے
سولی کی طرح آنکھ میں تعبیر گڑی ہے
ہمدردی کے دو بول نہیں بولے کسی نے
افلاس میں افلاک سے بھی راکھ جھڑی ہے
خورشید چلا آیا سوا نیزے پہ شاید
کہسار پگھلنے لگے، دھوپ اتنی کڑی ہے
برسوں سے چلا آتا ہوں مصروف عدو سے
یہ جنگ بقا کی ہے، سو ہر گام لڑی ہے
اشرف جاوید
No comments:
Post a Comment