اک نئی صبح کا آغاز ہے انجام کے بعد
پھر وہی سلسلۂ عشق ہے الزام کے بعد
جانے کیا ہو گا مِری سعیٔ طلب کا حاصل
ذہن میں کچھ نہیں محفوظ تِرے نام کے بعد
صحنِ گلشن میں بہاروں کا نشاں تک بھی نہیں
خاک اڑتی ہے فقط گردشِ ایام کے بعد
صبح سے کرب و اذیت کا یہ عالم توبہ
درد کچھ اور سوا ہوتا ہے ہر شام کے بعد
اس سے پہلے تو ہر اک عزم و عمل ہے بے سود
قلبِ مضطر کو سکوں ملتا ہے آلام کے بعد
اس نے کچھ اور خطابات دئیے ہیں خط میں
ساتھ وحشی بھی لکھا ہے مجھے بدنام کے بعد
میری جانب بھی خضر بزمِ عدو میں اک دن
اس کی مخصوص نظر تھی نگہِ عام کے بعد
خضر برنی
No comments:
Post a Comment