Friday, 30 April 2021

تو پھر یہ طے ہے کہ اب رابطہ نہیں ہو گا

 تو پھر یہ طے ہے کہ اب رابطہ نہیں ہو گا

تو پھر یہ جان لو کہ ہم نہ بھول پائیں گے

نہ بھول پائیں گے ہم سردیوں کی راتوں کو

اور ان میں کی ہوئی سب نرم گرم باتوں کو

کہی اور ان کہی باتیں تھیں اور فسانے تھے

ملن کی رُت میں بھی جو ہجر کے زمانے تھے

مگر جدائی میں گھڑیاں تھیں وصل کی کتنی

طویل ہو کے بھِی جو مختصر ہی ٹھہری تھیں

طویل یادیں ہیں ان مختصر سی گھڑِیوں کی

کہ جن میں حدت و شدت، حرارت و رنگت

انہی ادھورے حوالوں میں اک سیاہ چادر

خیال، خواب، گلے، شکوے اور میں اور تم

سنو وہ موسمِ دلدار لوٹ آیا ہے

مگر سیاہ چادر یہاں ندارد ہے

سیاہ پوش بھی گم اپنی دنیا میں ہیں کہیں

کہیں پہ چائے کی پیالی کی بھاپ میں گم سم

کہیں ہیں کافی کے بل کھاتے بادلوں میں گم

خیال و خواب کے امکان کی کہیں باتیں

کہیں ہے نان و نفقہ کی الجھنیں ہمراہ

جو ہجر بعدِ فنا بھی نہ ہم نے سوچا تھا

وہ آج چپکے سے ٹھنڈی ہوا کے ساتھ کہیں

مِری سیاہ چادر میں آ چھپا ہے ابھی


رابعہ درانی

No comments:

Post a Comment