عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں
واسطے میرے تقدیر تھی ہی نہیں
کس لئے ہو کے مجبور تم آۓ ہو
بیچ دونوں کے زنجیر تھی ہی نہیں
عالم رنگ و بُو کو سجایا گیا
اس تماشے میں تقصیر تھی ہی نہیں
تیرے درشن کو آنکھیں ترستی رہی
خانہ دل میں تصویر تھی ہی نہیں
اس کو عنبر گھسیٹا گیا تھا یونہی
رانجھے کے واسطے ہیر تھی ہی نہیں
نادیہ عنبر لودھی
No comments:
Post a Comment