Thursday 29 April 2021

عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں

عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں

واسطے میرے تقدیر تھی ہی نہیں

کس لئے ہو کے مجبور تم آۓ ہو

بیچ دونوں کے زنجیر تھی ہی نہیں

عالم رنگ و بُو کو سجایا گیا

اس تماشے میں تقصیر تھی ہی نہیں

تیرے درشن کو آنکھیں ترستی رہی

خانہ دل میں تصویر تھی ہی نہیں

اس کو عنبر گھسیٹا گیا تھا یونہی

رانجھے کے واسطے ہیر تھی ہی نہیں


نادیہ عنبر لودھی 

No comments:

Post a Comment