Tuesday, 27 April 2021

اتنی آساں نہ یہ رہائی تھی

 اتنی آساں نہ یہ رہائی تھی

جو تِرے ہجر میں کمائی تھی

غم سے نا آشنا وہ شہزادی

بے سبب تُو نے جو رُلائی تھی

اس کو عادت تھی چھوڑ جانے کی

میری قسمت میں بھی جدائی تھی

وہ تمہیں یاد ہے مِری برسی

ہم نے جو ساتھ میں منائی تھی

ہائے رستوں کو موڑنے والے

تُو نے منزل ہی کیوں دکھائی تھی

تھا مقدر اگر جدائی ہی

کیوں ہوئی تم سے آشنائی تھی

میرا آنا تھا نا پسند اگر

تُو نے محفل ہی کیوں سجائی تھی

میرے خوابوں میں گر نہیں آنا

تُو نے پھر نیند کیوں چرائی تھی

اب وہاں درد کا بسیرا ہے

ہم نے دنیا جہاں بسائی تھی


عالیہ شاہ

No comments:

Post a Comment