کوئی بڑھ کر ستم مجھ پر ستم ایجاد کیا کرتا
بسایا ہی نہیں جس کو اسے برباد کیا کرتا
سکھایا بولنا اس کو زبان بے زبانی سے
اگر لب کھول لیتی میں وہ پھر ارشاد کیا کرتا
کہاں قد ناپتا میرا، بھلا یہ شعر کم قامت
سو میرا شعر بھی پا کر سیاسی داد کیا کرتا
نکل وہ خود نہیں پاتا شکنجِ ذات سے اپنی
جو اپنی قید میں خود ہو مجھے آزاد کیا کرتا
جہاں بازو رسن بستہ جہاں قدغن ہو لفظوں پر
کوئی زنجیر کیا ہلتی، کوئی فریاد کیا کرتا
اگر فطرت ہو سیمابی طبیعت بھی ہو سیلانی
در و دیوار کیا رکھتا، وہ گھر آباد کیا کرتا
رہائی ظلم سے اس کے میسر اور ممکن تھی
مگر میں نے یہی سوچا وہ میرے بعد کیا کرتا
عابدہ کرامت
No comments:
Post a Comment