Wednesday 28 April 2021

کوئی بڑھ کر ستم مجھ پر ستم ایجاد کیا کرتا

 کوئی بڑھ کر ستم مجھ پر ستم ایجاد کیا کرتا

بسایا ہی نہیں جس کو اسے برباد کیا کرتا

سکھایا بولنا اس کو زبان بے زبانی سے

اگر لب کھول لیتی میں وہ پھر ارشاد کیا کرتا

کہاں قد ناپتا میرا، بھلا یہ شعر کم قامت

سو میرا شعر بھی پا کر سیاسی داد کیا کرتا

نکل وہ خود نہیں پاتا شکنجِ ذات سے اپنی

جو اپنی قید میں خود ہو مجھے آزاد کیا کرتا

جہاں بازو رسن بستہ جہاں قدغن ہو لفظوں پر

کوئی زنجیر کیا ہلتی، کوئی فریاد کیا کرتا

اگر فطرت ہو سیمابی طبیعت بھی ہو سیلانی

در و دیوار کیا رکھتا، وہ گھر آباد کیا کرتا

رہائی ظلم سے اس کے میسر اور ممکن تھی

مگر میں نے یہی سوچا وہ میرے بعد کیا کرتا


عابدہ کرامت

No comments:

Post a Comment