تیری منشا ہے خاموشی میری ہے مرضی آواز
آؤ، مل کر آج بنائیں ہم کوئی فرضی آواز
چھاگل بھی لبریز ہے اب تو لیکن میری گونگی پیاس
تیری اوک سے پینا چاہے ٹھنڈے چشمے کی آواز
کس کی ہو زرخیز سماعت، کس کی بنجر، کیا معلوم
بھٹکے ہر اک سمت، ٹٹولے ہر رستہ، اندھی آواز
ایک سے ہیں آدابِ زباں بندی کے ہر اک محفل میں
صبر کا جام اُٹھا اے دل اور خاموشی سے پی آواز
گہری خاموشی میں بہتے غیر آباد جزیروں سے
کس نے میرا نام پکارا، کس نے مجھ کو دی آواز
آپ نشیبی بستی والے اُونچے شہر کے لوگوں سے
لازم ہے جب بات کریں اپنی رکھیں نیچی آواز
ناصرہ زبیری
No comments:
Post a Comment