اک مہکتے گلاب جیسا ہے
خوبصورت سے خواب جیسا ہے
میں اسے پڑھتی ہوں محبت سے
اس کا چہرہ کتاب جیسا ہے
بے یقینی ہی بے یقینی ہے
ہر سمندر سراب جیسا ہے
میں بھٹکتی ہوں کیوں اندھیروں میں
وہ اگر آفتاب جیسا ہے
ڈوبتی جائے زیست کی ناؤ
ہجر لمحہ چناب جیسا ہے
میں حقائق بیان کر دوں گی
یہ گنہ بھی ثواب جیسا ہے
چین ملتا ہے اس سے مل کے مگر
چین بھی اضطراب جیسا ہے
اب شبانہ مِرے لیے وہ شخص
ایک بھولے نصاب جیسا ہے
شبانہ یوسف
No comments:
Post a Comment