Tuesday 27 April 2021

اک مہکتے گلاب جیسا ہے

 اک مہکتے گلاب جیسا ہے

خوبصورت سے خواب جیسا ہے

میں اسے پڑھتی ہوں محبت سے

اس کا چہرہ کتاب جیسا ہے

بے یقینی ہی بے یقینی ہے

ہر سمندر سراب جیسا ہے

میں بھٹکتی ہوں کیوں اندھیروں میں

وہ اگر آفتاب جیسا ہے

ڈوبتی جائے زیست کی ناؤ

ہجر لمحہ چناب جیسا ہے

میں حقائق بیان کر دوں گی

یہ گنہ بھی ثواب جیسا ہے

چین ملتا ہے اس سے مل کے مگر

چین بھی اضطراب جیسا ہے

اب شبانہ مِرے لیے وہ شخص

ایک بھولے نصاب جیسا ہے


شبانہ یوسف

No comments:

Post a Comment