مِرا گمان ہے شاید یہ واقعہ ہو جائے
کہ شام مجھ میں ڈھلے اور سب فنا ہو جائے
ہو بات اس سے کچھ ایسے کہ وقت ساکت ہو
کلام اپنا تکلم سے ماورا ہو جائے
بچا کے آنکھ میں خود اپنی کھوج میں نکلوں
مِرے وجود میں ایک چور راستہ ہو جائے
کچھ اس طرح وہ نگاہِ خیال میں اترے
کہ اس کے آگے جھکوں اور وہ خدا ہو جائے
عطا ہو چشمِ تمنا کو وہ قرینۂ دید
کہ شوقِ دستِ تقاضا سے ماسوا ہوا جائے
رہے یہ تشنہ لبی دشتِ شوق میں قائم
وہ انتہائیں ملیں میری ابتدا ہو جائے
نصیب ہو کبھی ایسی بھی اک سحر عاصم
کہ شام ہجر کی فرقت کا سانحہ ہو جائے
عاصم بخشی
No comments:
Post a Comment