Tuesday 27 April 2021

یہ کیسی بات مرا مہربان بھول گیا

 یہ کیسی بات مِرا مہربان بھول گیا

کُمک میں تِیر تو بھیجے کمان بھول گیا

جنوں نے مجھ سے تعارف کے مرحلے میں کہا

میں وہ ہنر ہوں جسے یہ جہان بھول گیا

کچھ اس تپاک سے راہیں لپٹ پڑیں مجھ سے

کہ میں تو سمت سفر کا نشان بھول گیا

خمارِ قربتِ منزل تھا نا رسی کا جواز

گلی میں آ کے میں اس کا مکان بھول گیا

ہر اک بدلتی ہوئی رُت میں یاد آتا ہے

وہ شخص جو مِرا نام و نشان بھول گیا

کچھ ایسی بات کبوتر کی آنکھ میں دیکھی

عقاب خوف کے مارے اُڑان بھول گیا

میں سر بکف سرِ مقتل کچھ اس ادا سے گیا

کہ میرا دشمن جاں آن بان بھول گیا

قبائل آج بھی شِیر و شکر نظر آتے

خطیبِ شہر مگر وہ زبان بھول گیا

زمیں کی گود میں اتنا سکون تھا انجم

کہ جو گیا وہ سفر کی تھکان بھول گیا


انجم خلیق

No comments:

Post a Comment