Monday, 5 September 2022

ملے اک بار ملنے کی کبھی رغبت نہیں جاتی

 ملے اک بار ملنے کی کبھی رغبت نہیں جاتی

تکبر ہے مگر اتنا کہ بس نخوت نہیں جاتی

تساہل تو نہیں ہم کو قفس محبوب رکھتے ہیں

کہ اب مانوس ہیں صیاد سے چاہت نہیں جاتی

حسیں گیسو کے بل نے تو ہمارا بل نکالا ہے

تمہارے سرخ ہونٹوں کی کبھی لذت نہیں جاتی

تلاشِ حسنِ یکتا میں کٹی تھی زندگی اپنی

مِرے شوقِ جمالِ یار میں وحشت نہیں جاتی

اٹھا دو آج پردے کو ملا لو ہم سے بھی نظریں

مگر ماہِ لقا کی سنگ دل عادت نہیں جاتی

جہانِ رنگ و بو میں تو تمہارا حسن خواہش تھی

مِری تو کم نصیبی ہی کرے غارت نہیں جاتی

یہ رمزی! شاعری کی جانتا اب تک نہیں ابجد

مگر کیسے یہ لکھتا ہے مِری حیرت نہیں جاتی


معین لہوری رمزی

No comments:

Post a Comment