زندگی چہرہ مانگتی ہے
آج زندگی کی تاریخ تھی
اور وہ اس کے سامنے چیخ رہی تھی
جس نے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی
''اب میں بے چہرہ کیسے جیوں؟"
میں نے تو اپنا چہرہ کاٹ کاٹ کر
بے چہرہ نسلوں میں بانٹ دیا
میری کور چشمی گواہ ہے
کہ میں نے اپنے سبھی منظر
بے منظر آنکھوں کو دے دئیے
میری تمام خواہشیں نئی نسل نے بیچ کر
اپنی آرزوئیں خرید لیں
ہنسنے کے لیے میرے پاس اب ہونٹ نہیں ہیں
نسلوں کو دھوپ سے بچاتے بچاتے
جب سر میں چاندی اگ آتی ہے
تو نسلوں کے خون میں سفیدی کیوں دوڑنے لگتی ہے؟
ہر طرف مِرے ہی دئیے ہوئے چہرے گھوم رہے ہیں
اور میں اپنا چہرہ ڈھونڈ رہی ہوں
آخر بے چہرہ ہو کر کیسے جیا جا سکتا ہے
مگر اس کی آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی
وہ کیسے بے چہرہ زندگی کو دیکھتا
اس کے ہاتھ سے جڑا ترازو کانپنے لگا
اس کے پاس نئے چہرے نہیں تھے
اور اس نے زندگی کو ایک لمبی پیشی دے دی
منیر احمد فردوس
No comments:
Post a Comment