Monday, 5 September 2022

سنو تم لوٹ آؤ نا

 ہماری ٹُوٹتی سانسیں

ہماری سوچتی آنکھیں

ہماری جاگتی راتیں

ہوا کے دوش پہ رکھی مناجاتیں

تمہیں واپس بلاتی ہیں 

سنو تم لوٹ آؤ نا جہاں بھی ہو

تمہارے بعد جو بھی ہے

تمہارے سوگ میں ڈُوبا ہوا ہے

وقت کی سُوئی اسی لمحے پہ ٹھہری ہے

جہاں تم نے بچھڑنے کا ارادہ کر لیا تھا

اور میں یادوں کے جھکڑ میں 

اکیلا رہ گیا تھا

تمہیں معلوم ہے جب دل دھڑکتا ہے

تمہارا نام لیتا ہے 

یہ آنسو جب بھی بہتے ہیں تمہارے دُکھ میں بہتے ہیں

ہوائیں جب بھی گلیوں میں بھٹکتی ہیں

تمہیں ہی گُنگناتی ہیں

تمہارا بَین کرتی ہیں

یہ بارش جب بھی ہوتی ہے 

تمہاری یاد کی شمعیں جلاتی ہے

شفق مجھ کو تمہارے وصل میں بھیگے ہوئے

ان موسموں کے ان گِنت قصے سناتی ہے

سنو جب تم نہیں ہو تو

یہاں ہر سمت اب اک خوف ہے اک درد ہے

اک آہ وزاری ہے

سنو تم لوٹ آؤ نا

جہاں تم ہو وہ دنیا کب تمہاری ہے

سنو تم لوٹ آؤ نا

تمہارے بعد جو بھی ہے

تمہارے سوگ میں ڈُوبا ہوا ہے


سباس گل کے افسانے سے نظم کا اقتباس

No comments:

Post a Comment