جس گھر میں محبت کے رقیباں نہ رہیں گے
اس گھر میں کبھی خار مغیلاں نہ رہیں گے
اے وقت کے حاکم! تجھے معلوم نہیں کیا
یہ ارض و سما اور شبستاں نہ رہیں گے
ہم سوتے رہے شام و سحر یوں ہی اگر، تو
حالات بدلنے کے بھی امکاں نہ رہیں گے
مسلک کو الگ رکھ کے رہیں آج بھی مومن
دعویٰ ہے مِرا، دہر میں شیطاں نہ رہیں گے
خوشحال کوئی دہر میں صوفی نہ ملے گا
دنیا میں اگر درد کے درماں نہ رہیں گے
صوفی بستوی
No comments:
Post a Comment