Wednesday, 11 December 2013

یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی

فلمی گیت

یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی
اک روشنی اندھیروں میں بکھرا گیا کوئی

وہ حادثہ، وہ پہلی ملاقات کیا کہوں
کتنی عجب تھی صورتِ حالات کیا کہوں
یوں قہر وہ غضب وہ جفا مجھ کو یاد ہے
وہ اس کی بے رخی کی ادا مجھ کو یاد ہے
مٹتا نہیں ہے ذہن پہ یوں چھا گیا کوئی
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی

پہلے مجھے وہ دیکھ کے برہم سی ہو گئی
پھر اپنے ہی حسین خیالوں میں کھو گئی
بیچارگی پہ میری اسے رحم آ گیا
شاید میرے تڑپنے کا انداز بھا گیا
سانسوں سے بھی قریب تھی مرے آ گیا کوئی
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی

یوں اس نے پیار سے مری بانہوں کو چھو لیا
منزل نے جیسے شوق کی راہوں کو چھو لیا
اک پل میں دل پہ کیسی قیامت گزر گئی
رگ رگ میں اس کے حسن کی خوشبو بکھر گئی
زلفوں کو مِرے شانے پہ لہرا گیا کوئی
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی

اب اس دلِ تباہ کی حالت نہ پوچھیے
بے نام آرزوؤں کی لذّت نہ پوچھیے
اک اجنبی تھا روح کا ارمان بن گیا
اک حادثہ سا تھا پیار کا، عنوان بن گیا
منزل کا راستہ مجھے دکھلا گیا کوئی
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی

 مسرور انور

No comments:

Post a Comment