Wednesday 11 December 2013

لکھ اپنی ڈائری میں کبھی میرا نام بھی

لکھ اپنی ڈائری میں کبھی میرا نام بھی
ان رنگ رنگ لفظوں میں اک سادہ نام بھی
دن تھے کہ تیری کار کا نمبر بھی یاد تھا
اب ہیں کہ ہم کو بھول گا اپنا نام بھی
گرمی تھی وہ مکان کا سب کچھ جھلس گئی
دل کا ورق بھی راکھ ہوا ،اس کا نام بھی
کل رات چومتا تھا تیرے ہونٹ بار بار
پیاسا تھا سخت میری طرح میرا نام بھی
اس سے ہی زندگی ہے میرے خوں کی شہر میں
برفیلی خواہشوں میں ایک جلتا نام بھی
وہ بھوک تھی میں اپنے ہی اندر کا کھا گیا
ملتا نہیں ہے دور تلک میرا نام بھی
محمود شامؔ پوچھتے ہیں سب وہ کون ہے
تم ہی کہو کہ ہوتا ہے خوشبو کا نام بھی

محمود شام

No comments:

Post a Comment