Thursday 12 December 2013

اس کے لہجے میں شکایت ہے خفا ہے مجھ سے

اسکے لہجے میں شکایت ہے، خفا ہے مجھ سے
پھر بھی پہلے کی طرح ہنس کے مِلا ہے مجھ سے
وہ یہی سوچ کے رَستے میں رُکا تھا شاید
اِک تعلق تو بہرحال رہا ہے مجھ سے
کیا خبر تُو ہی خطاوار ہے، ہرجائی ہے
بارہا دل کو یہ الزام مِلا ہے مجھ سے
کیا پتا پھر سے کسی روز مِلا دے قسمت
آج پِھر جاتے ہوئے کہہ وہ گیا ہے مجھ سے
اب تعلق ہے کوئی اور نہ رشتہ پھر بھی
فیصلہ اسکی حمایت میں ہوا ہے مجھ سے

پریا تابیتا

No comments:

Post a Comment