Thursday 12 December 2013

نفسِ مضمون بناتے ہیں بدل دیتے ہیں

نفسِ مضمون بناتے ہیں، بدل دیتے ہیں
کتنے عنوان سجاتے ہیں، بدل دیتے ہیں
تیرے آنے کی خبر سنتے ہی، گھر کی چیزیں
کبھی رکھتے ہیں، اٹھاتے ہیں، بدل دیتے ہیں
حسن ترتیب "تسلی" نہیں دیتا "دل" کو
گُل سے گُلدان سجاتے ہیں، بدل دیتے ہیں
گفتگو کو یونہی "محتاط" بنانے کے لیے
لفظ ہونٹوں پہ جو لاتے ہیں، بدل دیتے ہیں
ہم ہیں بے کل سے انہیں جب سے یہ معلوم ہوا
وقت "آنے" کا بتاتے ہیں، بدل دیتے ہیں
چاندنی رات میں آتے ہیں ستارے چل کر
اور "تقدیر" بناتے ہیں، بدل دیتے ہیں

پریا تابیتا

No comments:

Post a Comment