Thursday 12 December 2013

ہم ہی ٹھہرے ہیں سزاوار خطا کچھ بھی نہیں

ہم ہی ٹھہرے ہیں سزاوار، خطا کچھ بھی نہیں
تُو سمجھتا ہے تِرے بعد ہوا کچھ بھی نہیں
یاد جب آئی تِری، یاد رہا کچھ بھی نہیں
دل نے بس آہ بھری اور کہا کچھ بھی نہیں
وقت کی طرح یہ سانسیں بھی رواں ہیں اب تک
ایک بس اشک تھمے اور رکا کچھ بھی نہیں
ہاتھ سے ہاتھ چُھڑا کر وہ گیا ہے جب سے
میں نے اس وقت سے ہاتھوں سے چھوا کچھ بھی نہیں
مجھ سے کہہ دے وہ کسی روز اچانک آ کر
میرے جیون میں تِرے بعد بچا کچھ بھی نہیں
بعد مدت کے مِلا آج وہ پہلے کی طرح
اور اس بار اسے میں نے کہا کچھ بھی نہیں

پریا تابیتا

No comments:

Post a Comment