Saturday 14 December 2013

کام کرتی رہی وہ چشم فسوں ساز اپنا

کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سر افراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا
یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بت
کورِ بد بیں ہو تِرا، گنگ ہو غماز اپنا
سوزشِ دل سے زباں کو نہ ہوئی آگاہی
اف کیا منہ سے نہ ہم نے، نہ کھلا راز اپنا
خوف ہوتا ہے جگر، زمزمہ سن کر بے یار
دل دکھاتی ہے مغنی تِری آواز اپنا
نہ سنی یار نے اِک بات سخن سازوں کی
رہ گئے کھول کے منہ مفسدہ پرداز اپنا
پر کَترنے سے تو صیاد چھری ہی پھیرے
قصہ کوتاہ کرے حسرتِ پرواز اپنا
برہمن کھولے ہی گا بتکدہ کا دروازہ
بند رہنے کا نہیں کارِ خدا ساز اپنا
یاد آتی ہیں ادائیں جو تِری اے محبوب
بھول جاتے ہیں حسینانِ جہاں ناز اپنا
مرغِ دل صید گہِ عشق چلا ہے دیکھیں
طعمہ کرتا ہے اسے کون سا شہباز اپنا
روٹھ کر ملنے جو جاتا ہوں تو کہتا ہے وہ شوخ
کل خفا تم تھے مزاج آج ہے ناساز اپنا
خبرِ اول و آخر نہیں مطلق آتش
نہ تو انجام ہے معلوم نہ آغاز اپنا 

خواجہ حیدر علی آتش

No comments:

Post a Comment