Saturday 14 December 2013

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
نہ ٭جُھکاوو تم نگاہیں، کہیں رات ڈھل نہ جائے
ابھی رات کچھ ہے باقی، نہ اٹھا نقاب ساقی
تِرا رِند گِرتے گِرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
مِری زندگی کے مالک مِرے دل پہ ہاتھ رکھ دے
تِرے آنے کی خوشی میں مِرا دَم نکل نہ جائے
٭٭مِرے اشک بھی ہیں اس میں، جو شراب ابل رہی ہے
مِرا جام چھونے والے، تِرا ہاتھ جل نہ جائے
٭٭مِرے اشک بھی ہیں اس میں، یہ شراب ابل نہ جائے
مِرا جام چھونے والے، تِرا ہاتھ جل نہ جائے
میں بنا تو لوں نشیمن کسی شاخِ گلستاں پہ
کہیں ساتھ آشیاں کے یہ چمن بھی جل نہ جائے
مجھے پُھونکنے سے پہلے مِرا دِل نکال لینا
یہ کسی کی ہے امانت مِرے ساتھ جل نہ جائے

انور مرزا پوری

٭ مطلع کے دوسرے مصرعے میں مہدی حسن نے جھکاوو کو اٹھاوو گا دیا، بعد کی کئی غزلوں میں جھکاوو ہی گایا گیا جو درست مانا جاتا ہے۔
٭٭یہ شعر دو طرح سے ملا ہے۔

No comments:

Post a Comment