Saturday, 14 December 2013

زیادہ پی لی تھی جو کل شام کا منظر ناچا

زیادہ پی لی تھی جو کل شام کا منظر ناچا
یا پھر ایسا ہے کہ اندر کا قلندر ناچا
اب تلک چھنن چھنن چھن کی صدا آتی ہے
کون "بُلھا" تھا جو اس روح میں آ کر ناچا
اُس نے یکبار جو محفل میں اُٹھائی پلکیں
دستِ ساقی، کبھی بوتل، کبھی ساغر ناچا
دھڑکنیں وجد کُناں ہو کے ہوئیں چُپ ایسے
جب مِرے دل پہ مِرے یار کا خنجر ناچا
کیا کہیں کتنی دراڑوں نے زُباں کھولی ہے
دل کے شیشے پہ جو اِک ہِجر کا کنکر ناچا
وقتِ رُخصت مِری پلکوں سے لہو بھی نچڑا
پِھر مِرا ضبط مِری آنکھ میں آ کر ناچا
دیکھ کر ضبط مِرا دَشت نے پاؤں پکڑے
پِھر مِری پیاس پہ کہتے ہیں سمندر ناچا
یار نے دیکھ لیا ثاقبِؔ دل خستہ کو
پھر یہ پاگل سرِ محفل سرِ محشر ناچا

مجذوب ثاقب

No comments:

Post a Comment