Saturday, 14 December 2013

کہے نہ کچھ بھی فقط اعتراف کر ڈالے

کہے نہ کچھ بھی فقط اعتراف کر ڈالے
میں رو پڑوں تو مِرے اشک صاف کر ڈالے
کچھ ایسے نقش ہوئی دھیان میں وہ قامتِ سرو
کبھی کبھی تو شجر کے طواف کر ڈالے
میں اپنے وقت سے اس واسطے بنا کے رکھوں
یہ پھر نہ فیصلہ میرے خلاف کر ڈالے
ان آنسوؤں کے تسلسل نے ایک دن آخر
جگہ جگہ مِرے دل میں شگاف کر ڈالے
میں کیسے دیکھتی اسکی نظر کا مِیٹھا پن
ہزار عیب درونِ غلاف کر ڈالے
ہزار کوس کی دوری کے باوجود اکثر
مِری نظر نے ترے اعتکاف کر ڈالے
مجھی پہ منکشف ایسے ہوئے مِرے اشعار
بہت سے رازوں کے خود انکشاف کر ڈالے
زمانہ دیکھتا رہتا ہے سب سفید و سیہ
کہ کون وعدوں سے کب انحراف کر ڈالے
میں ایسے درد کی شدّت سے گزری رخشندؔہ
خدا نے پچھلے گنہ سب معاف کر ڈالے

رخشندہ نوید 

No comments:

Post a Comment