Saturday 14 December 2013

سدا بہار ہے کتنا یہ شاخسانۂ درد

سدا بہار ہے کتنا یہ شاخسانۂ درد
کہ بِیت کر بھی گزرتا نہیں زمانۂ درد
صدائے شورِ سگاں تک یہاں نہیں آتی
عجب سکوت سے معمور ہے یہ خانۂ درد
چراغِ منظرِ بے منظری اس آنکھ میں ہے
اسی کے دَم سے ہے روشن یہ آستانۂ درد
یہ لَو چراغ کی سر دُھن رہی ہے کیوں اپنا
ہَوا سُنا گئی اس کو بھی کیا ترانۂ درد
سرابِ چشم سے ٹپکے ہوئے زمانہ ہوا
کوئی ستارہ، کوئی گوہرِ یگانۂ درد
سمجھ رہا تھا جسے میں بس ایک خوابکدہ
وہ آنکھ تو مِری نکلی نگار خانۂ درد
سیاہ، جنبشِ پا سے بھی کر یہ صفحۂ دَشت
کہیں جہاں میں رقم بھی تو کر فسانۂ درد

رفیق راز 

No comments:

Post a Comment