Saturday, 14 December 2013

جلا رہا تھا جو سورج وہ ڈھل بھی سکتا تھا

جلا رہا تھا جو سورج وہ ڈھل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا تو مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ دل کی بات کو دل میں چھپا کے بیٹھا رہا
کہ مسئلے کا کوئی حل نکل بھی سکتا تھا
رکھا ہی کیا تھا مِرے گھر میں جس کا دکھ ہوتا
جلانے والے! تِرا ہاتھ جل بھی سکتا تھا
میں ساتھ ساتھ، تِرا ساتھ بھی نبھاتا رہا
اگر میں چاہتا آگے نکل بھی سکتا تھا
یہ اور بات کہ وحشت میں کٹ گئی قیصر
میں آس پاس کا منظر بدل بھی سکتا تھا

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment